Ibn kathir munkir e hadith!

18/07/2014 22:08

 
امام مسلم اور نسائی نے اپنی تفسیر میں اپنی سند سے ابو ہریرہ سے نقل کیا کہ وہ کہتے ہیں کہ نبی پاک نے میرا ہاتھ پکڑا، اور کہا: مٹی کو اللہ نے ہفتہ والے دن، پہاڑ کو اتوار والے دن، درختوں کو پیر، برائیوں کو منگل اور اچھائیوں کو بدھ والے دن، جانوروں کو جمعرات، اور حضرت آدم کو جمعہ کے دن، آخری ساعات میں، عصر سے رات کی بیچ میں پیدا کیا

یہ حدیث صحیح مسلم کے غرائب میں سے ہے۔ علی بن مدینی، بخاری اور دیگر علماء نے اس پر کلام/تنقید کیا ہے ۔ اور کہا ہے کہ یہ کعب الاحبار کا کلام ہے۔ ابو ہریرہ نے اس سے سنا، اور بعض راویوں کو شبہ ہوا اور اسے مرفوع بنا دیا
 ’’یاجوج وماجوج ذو القرنین کی بنائی ہوئی دیوار کو روزانہ کھودتے ہیں، یہاں تک کہ جب سوراخ میں سے سورج کی کرنیں اندر آنے لگتی ہیں تو ان کا 

نگران کہتا ہے کہ اب واپس لوٹ چلو، کل ہم اس دیوار کو کھود ڈالیں گے ، لیکن اگلے دن وہ آتے ہیں تو دیوار دوبارہ نہایت مضبوطی سے بند ہو چکی ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا ، یہاں تک کہ جب ان کی قید کی مدت پوری ہو جائے گی اور اللہ تعالیٰ ان کو لوگوں پر مسلط کرناچاہیں گے تو ایک دن وہ دیوار کو کھودیں گے اور جب سورج کی کرنیں اندر آنے لگیں گی تو نگران کہے گا کہ اب واپس چلو، ان شاء اللہ کل ہم اس کو کھود لیں گے۔ ان شاء اللہ کہنے کی وجہ سے جب وہ اگلے دن آئیں گے تو دیوار اسی حالت پر ہوگی جس پر وہ کل اسے چھوڑ کر گئے تھے، چنانچہ وہ اس کو کھود کر باہر نکل آئیں گے۔‘‘

یہ روایت بظاہر قرآن مجید کی اس آیت کے خلاف ہے:

فَمَا اسْطَاعُوْآ اَنْ یَّظْھَرُوْہُ وَمَا اسْتَطَاعُوْا لَہُ نَقْبًا ۔ (الکہف: ۹۷)
’’نہ وہ اس دیوار کو سر کر سکے اور نہ اس میں سوراخ ہی کر سکے۔‘‘

چنانچہ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں:

اسنادہ جید قوی ولکن متنہ فی رفعہ نکارۃ لان ظاہر الآیۃ یقتضی انہم لم یتمکنوا من ارتقاۂ ولا من نقبہ لاحکام بناۂ وصلابتہ وشدتہ ولکن ھذا قد روی عن کعب الاحبار .... ولعل ابا ھریرۃ تلقاہ من کعب فانہ کان کثیرا ما کان یجالسہ ویحدثہ فحدث بہ ابو ھریرۃ فتوھم بعض الرواۃ انہ مرفوع فرفعہ ۔ ( تفسیر القرآن العظیم ۳/ ۱۰۵)
’’اس حدیث کی سند بہت عمدہ اور قوی ہے ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس بات کی نسبت کرنا محل اعتراض ہے ، کیونکہ قرآن مجید کا ظاہر یہ تقاضا کرتا ہے کہ یاجوج وماجوج سدِ ذو القرنین کی مضبوطی، پختگی اور سختی کی وجہ سے نہ اس پر چڑھ سکے اور نہ اس میں نقب لگا سکے۔ یہ روایت اصل میں کعب الاحبار سے مروی ہے جو ابو ہریرہ کے پاس بکثرت بیٹھتے اور انھیں روایات سنایا کرتے تھے۔ غالباً ابوہریرہ نے یہ روایت ان سے سن کر بیان کی اور راوی نے غلط فہمی سے اس کی نسبت رسول اللہ کی طرف کر دی۔‘‘